🌹💚💙🌹💙💚🌹
*امت کا شیر حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ*
*🌹 سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا آپکو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیاانہوں نے تاریخی جواب دیا مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہے ڈرتا ہوں کہیں رب پوچھ نہ لے ایوبی قبلۂ اول بیت المقدس غیروں کے نرغے و قبضے میں تھا اور تم مسکرا رہے تھے تب رب کو کیا جواب دونگا⁉️ بس اسی لمحے سے ڈرتا ہوں اقصی کے غم میں کبھی مسکرایا نہیں ہوں ۔۔۔۔اللہ اکبر یہ تھے ہمارے اسلاف جنہوں نے مسجدِ اقصی کے غم میں اپنے چہرے سے ہنسی تک نوچ ڈالی تھی۔۔*
*🌹اور جب بیت المقدس آزاد ہو گیا تو ایوبی سجدۂ شکر ادا کرنے کے بعد اتنا ہنسے کہ لوگوں نے تعجب آمیز انداز میں انکی سمت دیکھا کہ انہیں کیا ہوگیا ایک سپاہی نے ہمت کر کے پوچھ لیا کیا آپ ہنستے بھی ہیں ⁉️ میں نے کبھی آپکے لبوں پر تبسم نہیں دیکھا تو آج آپ اتنا کیوں ہنس رہے ہیں ہیں⁉️ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے تب بھی تاریخی جواب دیا: جب میں بچہ تھا تو میری ماں نے مجھے بتایا ایوبی القدس لنا بیت المقدس ہمارا ہے تب میں نے کہا ماں اگر وہ ہمارا ہے تو اسے میں آزاد کرواؤں گا اگلے دن میں نے اپنے سب ہم مکتب ساتھیوں کا جا کر بتایا کہ مسجدِ اقصی ہماری ہے اسے میں آزاد کرواؤں گا سب مجھ پر ہنسے اور وہ ہنسی خنجر کی صورت میرے دل میں گڑی میں استاد کے پاس چلا گیا اور ان سے اپنے ساتھیوں کی شکایت لگائی وہ بھی قہقہ لگا کر ہنس پڑے۔۔*🔹
*🌹میری بات کو میرے استادوں نے بچگانہ بڑا خیال کیا۔۔*
*🌹میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا بس اپنے دل میں عہد کیا کہ مسجدِ اقصی کو رہائی میں ہی دلواؤں گا اور ہر صورت دلواؤں گا ہاں تب ہی میں نے اپنے دل میں مصمم ارادہ کر لیا کہ فلسطین میرے ہاتھوں فتح ہو گا آج جب القدس کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہیں تو مجھے وہ ہنسی یاد آ گئی آج میں اپنے ان سب ہم جماعتوں ہر ہنس رہا ہوں جنہوں نے کبھی میرا مذاق اڑایا تھا آج میں انہیں بس یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ارادے مضبوط ہوں لگن پختہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔۔*🔹
*🌹اس تحریر کا مقصد بس یہی ہے کہ اپنے بچوں کو بتائیے کہ القدس لنا بیت المقدس ہمارا ہے۔۔*🔹
🌹💙💚🌹💚💙🌹
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو ان کے جاسوسوں نے بتایا کہ ایک عالمِ دین ہیں جو بہت اچھا خطاب کرتے ہیں لوگوں میں بہت مقبول ہو گئے ہیں۔
سلطان نے کہا آگے کہو
جاسوس بولے "کچھ غلط ہے جسے ہم محسوس کر رہے ہیں مگر الفاظوں میں بیان نہیں کر پا رہے"
سلطان نے کہا "جو بھی دیکھا اور سنا ہے بیان کرو"
جاسوس بولے کہ وہ کہتے ہیں کہ "نفس کا جہاد افضل ہے، بچوں کو تعلیم دینا ایک بہترین جہاد ہے، گھر کی زمہ داریوں کیلئے جد وجہد کرنا بھی ایک جہاد ہے۔
سلطان نے کہا تو اس میں کوئی شک ہے؟؟
جاسوس نے کہا کہ انہیں کوئی شک نہیں لیکن اس عالم کا کہنا ہے کہ:
"جنگوں سے کیا ملا؟؟ صرف قتل وغارت گری صرف لاشیں، جنگوں نے تمہیں یا تو قاتل بنایا یا مقتول "
سلطان بے چین ہو کر اٹھے، اسی وقت عالم سے ملنے کی ٹھانی، ملاقات بھیس بدل کر کی اور جاتے ہی سوال کردیا کہ "جناب ایسی کوئی ترکیب بتائیے کہ بیت المقدس کو آزاد اور مسلمانوں کے خلاف مظالم کو بغیر جنگ کے ختم کرایا جاسکے؟ ؟" ،
عالم نے کہا دعا کریں
سلطان کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا، وہ سمجھ چکے تھے کہ یہ عالِم پوری صلیبی فوج سے بھی زیادہ خطرناک ہے
سلطان نے سب سے پہلے اپنے خنجر سے اُس عالم کی انگلی کاٹ دی، وہ بری طرح چیخنے لگا۔
اب سلطان نے کہا کہ اصلیت بتاتے ہو یا گردن بھی کاٹ دوں
پتہ چلا کہ وہ سفید پوش عالم ایک یہودی تھا، یہودیوں کو عربی بخوبی آتی تھی، جسکا اس نے فائدہ اٹھایا
سلطان نے پایا کہ اسکے جیسا درس اب خطبوں میں عام ہو چلا تھا، بڑی مشکل سے یہ فتنہ روکا جاسکا۔
یہ فتنہ اس وقت بھی پوری آب وتاب سے رواں دواں ہے۔
آخر کیوں لوگ اسلام کو بدھ ازم بنا دینا چاہتے ہیں ۔ جبکہ کھلی حقیقت ہے کہ ظالم کا سامنا کئے بغیر ظلم کا مداوا ہوجائے یہ ممکن ہی نہیں ۔
*الجھاد الجھاد لبیک لبیک*
#منقول
0 Comments